یہ شمعِ عشق جو دِل میں کہیں جلی ہُوئی ہے
اِسی کی لَو سے مصیبت مری ٹلی ہُوئی ہے
ترے ہی فیض سے پائے ہیں باغ نے خدوخال
کہ پُھول پُھول ہُوا ہے کلی کلی ہُوئی ہے
حضور آپ نے سونپا ہے حیدری نعرہ
اِسی کی گونج سے دِل میں علی علی ہُوئی ہے
اے اسمِ پاک چمک اور صُبح کر مُجھ میں
یہ رات پھر کسی آسیب میں ڈھلی ہُوئی ہے
فقیرِ عشق ہُوں مرنے سے مت ڈرا مُجھ کو
مرے گلے پہ یہ تلوار بھی چلی ہُوئی ہے
مُـجھے یہ نارِ جہنم جلا نہیں سکتی
کہ مَیں نے خاکِ شفا جسم پر مَلی ہُوئی ہے
یہ میرا تجربہ ہے ایک گھر میں ہو میلاد
تو ایسے لگتا ہے خُوشبو گلی گلی ہُوئی ہے