یہ شمعِ عشق جو دِل میں کہیں جلی ہُوئی ہے

اِسی کی لَو سے مصیبت مری ٹلی ہُوئی ہے

ترے ہی فیض سے پائے ہیں باغ نے خدوخال

کہ پُھول پُھول ہُوا ہے کلی کلی ہُوئی ہے

حضور آپ نے سونپا ہے حیدری نعرہ

اِسی کی گونج سے دِل میں علی علی ہُوئی ہے

اے اسمِ پاک چمک اور صُبح کر مُجھ میں

یہ رات پھر کسی آسیب میں ڈھلی ہُوئی ہے

فقیرِ عشق ہُوں مرنے سے مت ڈرا مُجھ کو

مرے گلے پہ یہ تلوار بھی چلی ہُوئی ہے

مُـجھے یہ نارِ جہنم جلا نہیں سکتی

کہ مَیں نے خاکِ شفا جسم پر مَلی ہُوئی ہے

یہ میرا تجربہ ہے ایک گھر میں ہو میلاد

تو ایسے لگتا ہے خُوشبو گلی گلی ہُوئی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]