یہ غم نہیں کہ وہ مجھ سے وفا نہیں کرتا

ستم تو یہ ھے کہ کہتا ھے ‘جا ، نہیں کرتا

طلوعِ عارض و لب تک مَیں صبر کرتا ھوں

سو منہ اندھیرے غزل اِبتدا نہیں کرتا

یہ شہر ایسے حریصوں کا شہر ھے کہ یہاں

فقیر بھیک لیے بِن دُعا نہیں کرتا

زباں کا تلخ ھے لیکن وہ دل کا اچھا ھے

سو اُس کی بات پہ مَیں دِل بُرا نہیں کرتا

سوال  عشق پہ لمبی کہانیاں نہ سنا

مجھے بتا کہ تو کرتا ہے یا نہیں کرتا ؟

بس ایک مصرعہؑ تر کی تلاش ھے مجھ کو

میں سعیؑ چشمہؑ آبِ بقا نہیں کرتا

شہیدِ عشق کی سرشاریاں مُلاحظہ ھوں

گلا کٹا کے بھی خُوش ھے ، گِلہ نہیں کرتا

مجھے قبول نہیں خیر و شر کی یہ پہچان

کہ وہ بُرا ہے جو میرا بھلا نہیں کرتا

دِل ایسا پھُول ھے فارس کہ جو مہکنے کو

کبھی بھی منتِ بادِ صبا نہیں کرتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]