کوئی کہاوت نہیں نہ کوئی حدیث ہے دوست شور میں بھی جو کان کھولو

سماعتوں پر سکوت کی دستکیں لگاتار ہوں اگر تو زبان کھولو

طویل عرصہ گزر گیا ہے اداس آنکھیں لیے خسارے کمارہے ہو

بہت کہا تھا نہیں بکیں گے نہیں بکیں گے نہ آںسوؤں کی دکان کھو لو

ہنروری سے کٹے ہوئے لوگ ناامیدی پہ روزوشب یہ ڈٹے ہوئے لوگ

زمیں نہیں جن سے کھل رہی ہم کو دے رہے ہیں وہ حکم کہ آسمان کھولو

محبتوں کے محاذ پر جو شکست کھائی تو جی سکو گے سپاہی سوچو

زرہ کسو ، برچھیاں اٹھاؤ ، رجز پڑھو ، تیغ تیز کر لو ، کمان کھولو

بڑے دنوں سے دبا ہوا ہے کسی دباؤ کسی گھٹن کے سبب یہ سینہ

بڑے دنوں سے مجھے صدا آ رہی ہے کھولو خدارا کھولو مکان کھولو

قریب ہے میں تجھے اپاہج لگوں مدد کر مری فقط اتنی سی مدد کر

بندھی ہوئی ہے جو تیس سالوں سے اس بدن سے کسی طرح یہ تھکان کھولو

ادھر ادھر کی کہانیاں فلسفے بہت سن لیے ہیں تجھ سے پس ِ رہ ِ ہجر

معاہدہ کیا ،ہوا بچھڑتے، ہوئے ہمارے فقیہہ وہ درمیان ، کھولو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]