کوچہِ ویران ہائے سینہِ خاموش سے

دل دھڑکنے سے ابھرتی تھی جو آہٹ بھی گئی

گر چکا ہے دور دھرتی پر شہابِ آرزو

آسمانِ منتظر سے سنسناہٹ بھی گئی

لب کشیدہ رہ گئے ہیں بس لکیروں کی طرح

عشق کے گوتم کی آخر مسکراہٹ بھی گئی

بے ثمر نکلا ہے میرا سن رسیدہ لمس پھر

رائیگاں کورے بدن کی کسمساہٹ بھی گئی

چلچلاتی دھوپ نے یکلخت جو چندھیا دیا

چشمِ خیرہ سے تمہاری زلف کیا ہٹ بھی گئی؟

پی گیا ہے ہجر تیرے رس بھرے ہونٹوں کا رس

جگنوؤں سی آنکھ سے اب جھلملاہٹ بھی گئی

کھو گئیں آخر خموشی میں کھنکتی چوڑیاں

ریشمی ملبوس کی وہ سرسراہٹ بھی گئی

دم بخود ، محوِ تماشہ ہائے وحشت رہ گئے

مجمعِ حیرت زدہ کی بھنبھناہٹ بھی گئی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]