کوچۂ الفت میں خوفِ آبلہ پائی نہ کر

یا سِرے سے دل میں شوقِ جادہ پیمائی نہ کر

پہلے ہی کیا کم ہے سودا اور سودائی نہ کر

اس تماشا گاہ میں دل کو تماشائی نہ کر

اے خدا میرے گناہوں کی صف آرائی نہ کر

حشر کے دن سامنے سب کے تو رسوائی نہ کر

دشتِ حیرت میں نہ گم ہو دیکھنا یہ دل کہیں

اس قدر اپنے سے بھی پیدا شناسائی نہ کر

بندگانِ رب کے بھی واجب ہیں تجھ پر کچھ حقوق

عمر اے زاہد تو اپنی وقفِ تنہائی نہ کر

ذوقِ سجدہ کے لئے کافی ہے اس کا آستاں

ہر کسی کے آستاں پر ناصیہ سائی نہ کر

سروری تو زیب دیتی ہے فقط اللہ کو

اے کہ تو بندہ ہے خود بندوں پہ آقائی نہ کر

اے نظرؔ کچھ چاہئے مقصد سے بھی وابستگی

خامہ فرسائی کی خاطر خامہ فرسائی نہ کر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]