کہتا ہے اپنے دل سے نکالوں میں اب تجھے

دانستہ اپنے دل میں بسایا ہی کب تجھے؟

میں خود کو خود میں ڈھونڈ نہیں پایا آج تک

حیرت ہے! مجھ میں ڈھونڈتے پھرتے ہیں سب تجھے

واقف نہیں جو حسن کی شوخی سے، کَم نصیب

کہتے ہیں بدلحاظ ، اجڈ ، بے ادب تجھے

کل پایا جس نے تجھ سے تمدن زکوٰة میں

سکھلا رہا ہے آج وہ جینے کا ڈھب تجھے

میں محوِ خواب ، خاک پہ ، دنیا سے بے خبر

مخمل کے بستروں میں سکوں کی طلب تجھے

چپ چاپ سن لیا سبھی ، بولا نہ ایک لفظ

دوں اس سے بڑھ کے کیا میں ثبوتِ نسب تجھے

مر کر بھی میری جان ، نہ چھوڑوں گا تیری جان

مرقد پہ میرے آئیں گے ، روئیں گے سب تجھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]