کہہ دوں شہِ کونین پہ جب بات چلی ہے

سر تا بہ قدم رحمتِ ذاتِ ازلی ہے

جب دل میں ترے آئے مدینہ کو چلی ہے

قسمت تری اے بادِ صبا مجھ سے بھلی ہے

اے صلِّ علیٰ نامِ محمد کی یہ تاثیر

جب آئے زباں پر تو کھلی دل کی کلی ہے

اس چاند کے ہالے میں ہیں کیا خوب ستارے

صدیقؓ ہے فاروقؓ ہے عثماںؓ ہے علیؓ ہے

وہ آئے تو روشن ہوئی یہ محفلِ ہستی

قندیل یہ ایماں کی اسی دن سے جلی ہے

فردوس کا نقشہ ابھی واضح نہیں مجھ پر

دیکھی نہیں آنکھوں سے ابھی ان کی گلی ہے

خم خانۂ باطل کے ہر اک جام کو توڑوں

میخانۂ وحدت کی ترے بوند بھلی ہے

امت کی سرِ حشر وہی ذاتِ گرامی

حامی ہے مددگار ہے ناصر ہے ولی ہے

اے کشتی ملی کے نگہبان مدد کر

گرداب کے رخ پر ہے ہوا ایسی چلی ہے

قرآں بھی پسِ پشت ہے سنت بھی پسِ پشت

امت تری اب مرتکبِ بد عملی ہے

آرام گہ شاہِ دو عالم ہے جہاں پر

اس شہر کی مٹی مجھے سونے کی ڈلی ہے

ہو چشمِ کرم اے شہِ دیں اپنے نظرؔ پر

پژمردہ و بے رنگ ابھی دل کی کلی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]