کہیں بھڑکا ہوا شعلہ کہیں پر پھول فن میرا

سخن میرا جہنم ہے ، سخن باغِ عدن میرا

تصور میں ہوئی روشن تری آواز کی شمع

پگھلنے لگ گیا ہے موم کی صورت سخن میرا

تمہاری آرزُو ، عریاں مری آغوش میں اتری

نیاز و عجز سے پسپاء ہوا ہے پیرہن میرا

زمانوں کے مسافر کی سبک دوشی ضروری تھی

مری پرواز کے رستے میں حائل تھا بدن میرا

مری بوسیدگی کی چال چل دی وقت نے وہ تو

مثالوں میں بیاں ہوتا تھا ورنہ بانکپن میرا

لگامیں کھینچنے والوں نے باچھیں چیر دی ورنہ

مرے اظہار کی شدت سے پھٹ جاتا دہن میرا

بہت مہنگا پڑا سر پھوڑنا وحشت کے عالم میں

جبیں تیشہ سمجھ بیٹھا مزاجِ کوہ کن میرا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]