کیا ہوا عمر گزاری ہے اگر تنہا بھی

وقت کٹ جائے غنیمت ہے کٹے جیسا بھی

بستیاں لوگ بساتے ہی اجڑ جاتے ہیں

زندگی کھیلتی ہے کھیل کبھی ایسا بھی

وقت کے دائرے میں گھوم رہے ہیں ایسے

دشت کی دھوپ بھی ہم لوگ ہیں اور دریا بھی

خون ِ معصوم کی عطرت ہی نہیں اس پہ عیاں

حرملہ تیر پہ لکھا ہے ترا شجرہ بھی

کل تلک آئنے سے تھی مری قربت مشہور

اب مجھے اچھا نہیں لگتا مرا چہرہ بھی

عرصہ ہجر اگرچہ تھا بڑا جان افزا

جسم میں باقی نہیں خون کا اک قطرہ بھی

میں جہنم کا ہوں حق دار کہ جنت کا بتا ؟

دین کے ساتھ مرے ہاتھ میں ہے دنیا بھی

اس لیے اشک اضافی بھی رکھے آ نکھوں میں

کربلا ہی نہیں جانا ہے مجھے برما بھی

اب کہاں جاؤں کروں رقص جیوں کیسے فقیہہ

ڈر گئے ہیں مری وحشت سے یہاں صحرا بھی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]