گرچہ کم کم تری تصویر نظر آتی ہے

سات رنگوں کی صدا آٹھ پہر آتی ہے

شاعری نامی پرندے کے ذریعے مُجھ تک

کتنے نادیدہ زمانوں کی خبر آتی ہے

حیرتی ہوں کہ گلی والے گُلوں کی خوشبو

کیسے در کھولے بِنا صحن میں دَر آتی ہے

کون فنکار سنبھالے وہاں مصرعے کی لچک

قافیہ بن کے جہاں تیری کمر آتی ہے

فیصلہ کر لے کہ ہے کون زیادہ حَساس

تجھ کو آتی ہے مہک ، مجھ کو نظر آتی ہے

شعر تو بعد میں ہم سُنتے سُناتے رہیں گے

پہلے بتلا تجھے تعظیم ِ ہنر آتی ہے ؟

اور کیا آئے گا ہم اہل محبت پہ عذاب

ہاں ، قیامت ہے سو آنے دو اگر آتی ہے

راستہ لاکھ مقفل ہو گلے سے لب تک

چیخ تو چیخ ہے ، چپکے سے گزر آتی ہے

زبدگی بھی ہے بڑی ڈھیٹ سی اک محبوبہ

چھوڑ جائے تو کہاں بار دگر آتی ہے

ایسا خود کار ہے فارس مرے اشکوں کا نظام

خالی ہوتی ہے مری آنکھ تو بھر آتی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]