گزشتہ غم کا تدارک ہے اور مداوا ہے

چل اٹھ دلا کہ نئے عشق کا بلاوا ہے

اُداسی اپنے تئیں کر رہی ہے مجھ میں قیام

یہ زہرِ عشق نہیں عشق کے علاوہ ہے

تمام شہر ہے اس کا مرید گر چہ وہ شخص

فقیر پیر قلندر ولی نہ باوا ہے

مرے چراغ مرے خواب کر قبول اے شخص

ترے مزار سے چہرے پہ یہ چڑھاوا ہے

کسی بھی شے کا حقیقی کوئی وجود نہیں

یہاں پہ جو بھی ہے ناٹک ہے سب دکھاوا ہے

یہ جس میں ہنستے ہوئے سانس لے رہے ہیں ہم

اسی سکون میں لگتا ہے ہر ڈراوا ہے

یہاں سکوت بگولے ملیں نہ کیسے تجھے

مرے مکان میں صحرا کا آوا جاوا ہے

فقیہہ راکھ دھوئیں کے سوا ملے کیا داد

کلام ہی ترا آتش فشاں کا لاوا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]