گلاب فکر ہے ان سے عمل بھی لالۂ خیر

جڑا ہے ذکر سے ان کے ہر اک حوالۂ خیر

زباں ہے لفظ طلب تو بیان عجز نشاں

قلم ہے تشنہ رقم لکھنے کو مقالۂ خیر

انہی کی سیرتِ اطہر انہی کا خلقِ عظیم

مطالعاتِ جہاں میں حسیں مقالۂ خیر

ورق ورق پہ ہیں روشن عطا و مہر و کرم

حیاتِ نور کا دفتر کھلا رسالۂ خیر

عطا نواز ہیں ان کے گدا بھی شاہوں کو

رہِ حبیب کے ذرّے بنے ھمالۂ خیر

کوئی بوصیری و حسّاں اگر ثنا میں رہے

اسے کریم عطا کرتے ہیں دو شالۂ خیر

کریں گے آپ شفاعت گناہ گاروں کی

مرے حضور مری بھی کریں وکالۂ خیر

بنامِ سیّدہ زہرا ہماری ماں کو ملے

لکھا ہوا ہے شفاعت کا جو قبالۂ خیر

رہِ حیات ہے روشن بہ نُورِ آلِ عبا

کہ تیری ذات ہے طٰہٰ وہ تیرے ھالۂ خیر

ظفر نصیب ہے مجھ کو جو نعتِ خیر یہاں

بروزِ حشر بھی حاصل رہے حوالۂ خیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]