گُلاب موسم ہے اور نکہت کا سلسلہ ہے

دیارِ خوشبو کا سارا منظر ہی دلکشا ہے

مَیں اُس سخی کے حضور میں ہُوں، پہ سوچتا ہُوں

جو ساتھ لایا تھا حرفِ مطلب وہ کیا ہُوا ہے

جو بے طلب ہی عطا ہے وہ تیرے در کو زیبا

جو بے نیازِ سوال ہے وہ ترا گدا ہے

مَیں رہ گُزارِ کرم میں مثلِ غُبار بے خود

مرا مقدر بکھر کے بھی کیا سنور گیا ہے

گدائے حرفِ ثنا کے دامن میں اور کیا تھا

یہ شعر تھا جس کو تیرے در پر ہی رکھ دیا ہے

اس ایک منظر میں ہی رہی ہے حیاتِ منعَم

تری نظر ہے، ترا کرم ہے، تری عطا ہے

ترے ہی در سے جُڑے ہیں سب نام طلعتوں کے

یہ حُسن زادِ جہان تیرا ہی نقشِ پا ہے

خطا سراپا ہوں، حرفِ توبہ ہے، تیرا در ہے

اور اِس سے آگے کا سارا منظر تری رضا ہے

عجیب حیرت کدہ ہے مقصود شہرِ سرور

زمیں کی جیسے جبیں پہ رکھا ہُوا سما ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]