ھر حقیقت سے الگ اور فسانوں سے پرے

مُنتظر ھُوں مَیں ترا سارے زمانوں سے پرے

پھر مَیں اک روز بڑی گہری اُداسی سے ملا

بستیوں کے سبھی آباد مکانوں سے پرے

نہ زماں ھو نہ مکاں ھو نہ خلا ھو نہ خُدا

صرف ھم تُم ھوں کہیں سارے جہانوں سے پرے

عکس در عکس رُلاتی تھیں مُجھے جو آنکھیں

چھوڑ آیا ھُوں اُنہیں آئنہ خانوں سے پرے

خواب دیکھا ھے، دُعا کر کہ یہ جُھوٹا نکلے

مَیں کہیں اشک فشاں تھا ترے شانوں سے پرے

رونے دھونے کے لیے ھم نے بنایا ھُوا ھے

اک ٹھکانہ سبھی معلُوم ٹھکانوں سے پرے

مَیں دعاؤں میں بھی کرتا ھُوں ترے نام کا ورد

تُو نہیں ھے مری تسبیح کے دانوں سے پرے

میرے رونے سے خفا ھو کے وہ بولا، فارس

اپنی چیخوں کو تُو لے جا مرے کانوں سے پرے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]