ہم اپنے اعمال پہ اپنے اندر ڈوب کے مر جاتے ہیں

جیسے سورج روز افق میں جا کر ڈوب کے مر جاتے ہیں

اس کوٹھی میں رہنے والے جانے ایسا کیا کرتے ہیں۔

کوئی پوچھے تواس گھر کے نوکر ڈوب کے مر جاتے ہیں

”میری تیراکی کے آگے دریا بھی پانی بھرتا ہے”

ایسا دعویٰ کرنے والے اکثر ڈوب کے مر جاتے ہیں

ساحل کا احسان اٹھا کر ہم جیسوں نے جینا ہے تو

ایسے زندہ رہنے سے تو بہترڈوب کے مر جاتے ہیں

سیلابوں میں گھاس اور پتے موجوں پر موجیں کرتے ہیں

جبکہ سارے بھاری بھاری پتھر ڈوب کے مر جاتے ہیں

ہم اللہ والوں کے آگے دریا بھی رستہ بنتا ہے

تیرے جیسے فرعونوں کے لشکر ڈوب کے مر جاتے ہیں

تیری آنکھوں کے نشے کی مے خانے میں بات چلے تو

بوتل کا سر جھک جاتاہے، ساغر ڈوب کے مر جاتے ہیں

اللہ چاہے جس کو، اس کو تنکا پار لگا دیتا ہے

ورنہ کشتی وشتی، لنگر ونگر ڈوب کے مر جاتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]