ہماری بستیاں کیوں ہوں مثالِ عاد وثمود

ہماری بستیاں کیوں ہوں مثالِ عاد و ثمود

ثنا کی گونج گھروں میں لبوں پہ وردِ درُود

متاعِ مال ہو اولاد ہو کہ خواہشِ عیش

نثار ان کی رضا پر تمام دولتِ بود

مرے پڑے تھے جہالت کے اندھے کہروں میں

سو پھر سے آپکی آمد نے کی ہماری نمود

کلیدِ فکرِ سخن ہے ثنائے شاہِ عرب

خیالِ نعت رقم ہو تو ٹوٹتا ہے جمود

حصارِ دین میں ہیں ہم تو ان کے سائے میں ہیں

بڑی سعید ہیں اپنے لئے حدود و قیود

نقوشِ پائے محمد سے عشق اٹھتا ہے

ہوا بہانوں سے جاتی ہے سوئے دشتِ سعود

عبادتوں میں یہ منت پذیرِ آقا ہیں

مرے قیام وتشہد مرے رکوع و سجود

یہ برتری یہ نبوت تجھے ہی زیبا ہے

کہ بے کنار ہے رحمت ، زمانہ لا محدود

ضیائے جودِ نبی سے ملی دمک ، جن کی

بصارتیں تھیں حجر بے صدا قلوبِ حسود

بہ نسبتِ شہِ والا مراد پائیں گے

سرِ شہود طلبگارِ یک نگاہِ ودود

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]