ہمیں سے جستجوئے دوست کی ٹھانی نہیں جاتی

تن آسانی بری شے ہے ، تن آسانی نہیں جاتی

ہمیشہ دامن اشکِ خوں سے لالہ زار رہتا ہے

یہ فطرت کے تبسم کی گل افشانی نہیں جاتی

نظامِ دہر اگر میرے لیے بدلا تو کیا بدلا

کسی گھر سے بھی شامِ غم بآسانی نہیں جاتی

جنوں میں ہوش کیا جاں بھی بسا اوقات جاتی ہے

نہیں جاتی تو طرزِ چاک دامانی نہیں جاتی

سنا ہے شوخ جلوے بھی تحیر خیز ہوتے ہیں

گزر جاتی ہے ساری عمر حیرانی نہیں جاتی

میں خود اپنی محبت میں کمی محسوس کرتا ہوں

مری صورت سے دل کی بات پہچانی نہیں جاتی

چمن والوں سے مجھ صحرا نشیں کی بود و باش اچھی

بہار آ کر چلی جاتی ہے ویرانی نہیں جاتی

ابھی ماحول عرفان و ہنر میں پست ہے حیدرؔ

یکایک ہر بلند آواز پہچانی نہیں جاتی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]