ہو گئے راکھ سبھی خواب شہابی تیرے

ہاتھ کیا آیا بجز خانہ خرابی تیرے

وقت مصروفِ ترامیم رہا اور ادھر

زرد پڑتے گئے رخسار گلابی تیرے

ہم کہ جاں دادہِ یک نانِ جویں تھے ائے دل

ہائے کم بخت مگر شوق نوابی تیرے

دست کش، جا ، کہ نہیں آج کوئی دستِ طلب

مر گئے پیاس کی شدت سے شرابی تیرے

عشق آنکھوں کی نمی چوس کے دم لیتا ہے

خاک ہو جائیں گے یہ کرہِ آبی تیرے

لمس کا باب کہ بس تشنہ تحریر رہا

لاکھ چہرے تھے شبِ وصل کتابی تیرے

خودکشی ٹھان کے ہتھیار اٹھائے تھے یہاں

روکنے تھے ہی نہیں وار جوابی تیرے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]