رحمت کے موسموں کے پیمبر حضور ہیں

بخشش ، کرم ، عطا کے سمندر حضور ہیں

دُنیائے ہست و بود تھی امکانِ ہست و بود

ایقاں نواز نور کے پیکر حضور ہیں

جذبوں نے حرفِ شوق کے سارے سخن لکھے

لیکن فصیلِ نعت سے اوپر حضور ہیں

آتے رہے چراغ بہ کف منزل آشنا

سب رہبروں کے آخری رہبر حضور ہیں

جاں کو تپش تو ہے پہ نہیں دل کو بے کلی

دل کو خبر ہے شافعِ محشر حضور ہیں

چلتے تھے ساتھ ساتھ تمنا کے قافلے

نکہت نواز جسمِ معنبر حضور ہیں

تن کے اُفق پہ ان کی کرم بار طلعتیں

من کے نگار خانے کے اندر حضور ہیں

قطرہ ہوں میں پہ بحر سے ہے میرا واسطہ

بردہ ہوں میں پہ سیّد و سرور حضور ہیں

سُن مہرِ حشر گیسوئے اطہر ہیں سائباں

سن تشنگی کہ ساقیٔ کوثر حضور ہیں

جیسے وجود و جسم میں ہیں افضل البشر

ویسے ہی خلقِ نور میں انور حضور ہیں

آنکھوں کو خوابِ غیر کی حاجت نہیں رہی

منظر حضور ہیں، پسِ منظر حضور ہیں

قلبِ تپاں میں ان کے ہیں تذکار بار بار

لوحِ زباں پہ مدحِ مکرّر حضور ہیں

جذبِ دروں کی دُھن پہ رواں ہوں میں سوئے خلد

حامی حضور ہیں، مرے یاور حضور ہیں

شکرِ خدا کہ نطق کا مہبط ہے ان کا اسم

حمدِ خدا کہ حرف کے محور حضور ہیں

ماں باپ اور بچوں سے آگے وہ ذاتِ پاک

مقصودؔ مجھ کو جان سے بڑھ کر حضور ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]