ہوئے مسند نشیں پھر ملک و ملت بیچنے والے

بنا کر بھیس زر داروں کا غربت بیچنے والے

خدا حافظ بزرگوں کی امانت کا خدا حافظ

محافظ ہو گئے گھر کے، وراثت بیچنے والے

زمیں ملکِ خدا میں ہو گئی تنگ اب کہاں جائیں

کدالیں تھام کر ہاتھوں میں محنت بیچنے والے

خزانے میری مٹی کے عجب ہیں کم نہیں ہوتے

مسلسل بیچتے ہیں بے رعایت بیچنے والے

قلم کی روشنائی کر رہے ہیں صرفِ آرائش

صحافت کی دکانوں میں سیاست بیچنے والے

مٹا کر تو دکھائیں پہلے کالک اپنے چہروں کی

بنام صبح روشن تر یہ ظلمت بیچنے والے

دل و جاں بر طرف، بکتے رہیں گے دین و ایماں بھی

خریداروں کی دنیا میں سلامت بیچنے والے

منافق ہو گئی میری سماعت بھی ظہیرؔ آخر

پسند آئے سر منبر خطابت بیچنے والے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]