ہے تلخئ حالات سیہ رات بہت ہے

ہو جائے اگر چشمِ عنایات، بہت ہے

جاں بخش ہے یہ قول کسی اہلِ نظر کا

ہوں اُن کی نگاہوں میں یہی بات بہت ہے

بَردے کو ملے بارِ دگر اذنِ حضوری

بے مایہ کی آقا یہ مدارات بہت ہے

پھر شام و فلسطین میں اے رحمتِ عالم!

اُمّت تیری در رنج و بلیّات بہت ہے

آنسو نہیں موتی ہیں یہ چشمانِ طلب میں

یہ گنجِ گراں مایہ کی سوغات بہت ہے

صد شکر کہ منگتا نہیں شاہانِ زمن کا

دامن میں تیری آل کی خیرات بہت ہے

لفظوں میں سکت ہے نہ معانی میں قرینہ

ہوں وقفِ ثنا پھر بھی یہ اوقات بہت ہے

اے حاصلِ گفتار ! مری وجہِ تکلّم

ہر آن تر و تازہ تری بات بہت ہے

اے روحِ تکلّم اے مری جانِ قصیدہ !

سو باتوں کی اک بات تری بات بہت ہے

کچھ کام نہیں شعر و سخن دادِ ہُنر سے

مقصودِ ظفر آپ کی بس نعت بہت ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]