آہستگی سے شیشہِ دل پر خرام کر

میرا نہیں تو عشق کا ہی احترام کر

ہے ماوراء بیاں سے مرا آٹھواں سفر

ائے داستان گو ، مرا قصہ تمام کر

میں تو اٹک کے رہ گیا نصف النہار پر

گردش زمین کی ہی بڑھا اور شام کر

رشکِ مطالعہ ، مجھے بین السطور پڑھ

ائے نازِ گفتگو ، مری چپ سے کلام کر

میں آسماں بدوش کھڑا ہوں ترے لیے

دھرتی پہ لوٹ جا مرے دامن کو تھام کر

لایا ہوں خام عہد میں خالص اُداسیاں

آ ، ائے عروسِ شعر ، مرا فیض عام کر

درکار ہے جہاں میں گزارے کا حوصلہ

میں نے یہ کب کہا کہ جہاں میرے نام کر

اس شہرِ سنگ و ریگ میں ممکن کہاں نمو

ائے دردِ بارور ، مرے دل میں قیام کر

شاخِ گلوئے خواب تو لہجے نے کاٹ دی

عریاں بدن کی تیغ کو چاہے نیام کر

مہماں ہوں ایک پل کا بھلے ، کارواں سراء

اب آ کھڑا ہوا ہوں تو کچھ اہتمام کر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]