ہے کیا مری مجال میں ، ہے کیا مری بساط میں

ترے کرم سے ہُوں شہا ! ثنا کے انضباط میں

ابھی تو اذنِ حرفِ نعت بھی عطا ہُوا نہیں

ابھی سے ہے خیال خَم حریمِ احتیاط میں

وہ بارگاہِ ناز کس قدر کرم نواز ہے !

دُعا ہے انبساط میں ، عطا ہے انبساط میں

وہ نام واسطہ ہے صوتِ دل کے انسلاک کا

وہ نام رابطہ ہے تارِ جاں کے ارتباط میں

حریمِ دل میں ضَوفشاں ہیں طلعتوں کے سلسلے

چراغِ نعت جل رہا ہے شوق کے رباط میں

عطائیں بابِ خیر کھولتی ہیں دستِ ناز سے

دعائیں بھیجتا ہُوں جب درود کے مُحاط میں

کمالِ فن نمو طلب ہے آپ کے کمال سے

ہے انجذابِ فکرِ راست آپ کی صراط میں

ہُوا ہے جب سے میرے دل پہ اذنِ نعت کا کرم

مَیں سانس سانس جی رہا ہُوں عرصۂ نشاط میں

کرم ہوا نصیب جاں ہُوئی ثنا کی چاکری

یہ زیست ، ورنہ ، کھو چلی تھی دشتِ انحطاط میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]