یاس کس طرح نمو جُو ہو دلِ زار کے پاس

مژدۂ عفوِ نہایت ہے خطا کار کے پاس

حیطۂ جاں میں رواں ہے یمِ تمدیح کی رَو

تشنگی پھر بھی کہیں رہتی ہے اظہار کے پاس

لَوٹ آیا ہے مدینے سے تنِ جبر نصیب

دل بصد عجز وہیں ہے درِ غمخوار کے پاس

موجۂ بادِ شفاعت مرے امکان میں اُترا

فردِ عصیاں ہے مری ، نگہ دار کے پاس

بامِ تعبیر پہ رخشاں ہے ترے خواب کا لمس

قدِ احساس سے بالا ، حدِ آثار کے پاس

وہ جو چاہیں تو شَرف یابِ زیارت کر دیں

بس تمنا کی ریاضت ہے طلب گار کے پاس

دستِ اجبارِ اجل پردۂ رخصت نہ گرا

ساعتِ دید ہے باقی ابھی بیمار کے پاس

خامۂ عجز کو حاصل ہے ترے اسم کا ناز

مدحتِ نَو کا تفاخُر ہے نگوں سار کے پاس

بے اماں فردِ غلط کار ہے رنجُورِ الم

اور مداوا ہے اُسی دستِ شفا بار کے پاس

بخت یاور ہو تو رہ جاؤں مدینے میں کہیں

صورتِ گرد ، پریشاں در و دیوار کے پاس

مجھ پہ ہو جائے جو مقصودؔ عنایت کی نظر

جی اُٹھے ساعتِ بے دَم شبِ دیدار کے پاس

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]