یوں تو ہر طور سے جینے کا کمال آتا ہے

پر ترے ساتھ نہ رہنے کا ملال آتا ہے

کام آنکھوں سے چلا سکتا ہوں لیکن مجھ کو

تیرے بکھرے ہوئے بالوں کا خیال آتا ہے

میں بھی چھپ چھپ کے کہیں اشک بہا دیتا ہوں

روز یوں ہی مری آنکھوں پہ زوال آتا ہے

میرے اشعار سناتی ہیں ہوائیں مجھ کو

شعر میرے وہ ہواؤں میں اچھال آتا ہے

ایک بے چین گھٹا آنکھ میں چھا جاتی ہے

جب اچانک ترے بارے میں سوال آتا ہے

رات دن بس یہی ترتیب لگی رہتی ہے

دوسرا غم مجھے پہلے سے، نکال آتا ہے

دور ہو کر اسے کچھ اور بھی محسوس کروں

زینؔ اُس شخص کو اک یہ بھی کمال آتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]