ثنا خوانِ محمد پتّہ پتّہ ڈالی ڈالی ہے

کہ خود توصیف اس نے کی ہے جو گلشن کا مالی ہے

تری صورت خدا نے نور کے سانچے میں ڈھالی ہے

ترا اخلاق اونچا ہے ترا کردار عالی ہے

تیری سیرت مطہر ہے، منوّر ہے، نرالی ہے

تری تعلیم پاکیزہ ترا اسوہ مثالی ہے

سرِ عرشِ بریں پہنچی ہوئی وہ ذاتِ عالی ہے

شبِ معراج نے دیکھا کہ بستر اس کا خالی ہے

کہیں کا کوئی سلطاں ہے کہیں کا کوئی والی ہے

ترے دربار میں آ کر مگر ہر اک سوالی ہے

تمہارا دین آساں ہے مطابق عین فطرت کے

کوئی افراط کا پہلو نہ کچھ بے اعتدالی ہے

قیامت تک تمہاری ہے بغیرِ شرکتِ غیرے

رسالت کاملہ کی آ کے جو گدّی سنبھالی ہے

جمال ان کا ہے کیف آگیں ادائیں دل نشیں ساری

اُتر جاتی ہے دل میں بات وہ شیریں مقالی ہے

پسِ مُردن بھی صدیقؓ و عمرؓ ساتھی ہیں مرقد میں

نہ ان سے پہلے خالی تھا ترا پہلو نہ خالی ہے

تھی اپنی فکر ژولیدہ، پراگندہ و فرسودہ

ترے قرآں کی منّت کش مری روشن خیالی ہے

ترے روضے کو چومیں پے بہ پے جوشِ عقیدت سے

ہمارے درمیاں حائل مگر روضے کی جالی ہے

مرے آقا گناہوں میں کٹی ہے زندگی ساری

سرِ محشر نظرؔ تجھ سے شفاعت کا سوالی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]