یہ الگ بات کہ حیرت کرے، حسرت نہ کرے

دیدۂ شوق کہاں جائے جو مدحت نہ کرے

اُن کی زلفوں نے برس جانا ہے بادل بن کر

مہرِ محشر سے کہو اتنی تمازت نہ کرے

آنکھ اِک دید پہ ٹھہری ہے تو ٹھہری ہی رہے

دل کا کیا کام اگر ان سے محبت نہ کرے

دل دھڑکتا ہے، سسکتا ہے، تڑپتا ہے بہت

پاسِ آداب، مگر کوئی شکایت نہ کرے

ایک اندیشے کے ہمراہ چلا ہُوں طیبہ

آنکھ پتھرائی رہے اور زیارت نہ کرے

مجھ کو معلوم ہے تا حدِ نظر ہے لغزش

اُن کی رحمت یہ نہیں ہے کہ شفاعت نہ کرے

اُس درِ خیر کی مقصودؔ گدائی ہے مجھے

جو بصد بار نوازے پہ نہایت نہ کرے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]