آخر میں کھلا آ کر یہ راز کہانی کا

انجام سے ہوتا ہے آغاز کہانی کا

اس عہدِ تصنع کی ہر بات ہے پردوں میں

عنواں نہیں ہوتا اب غماز کہانی کا

تکرار بناتی ہے اب جھوٹ کو سچائی

تشہیر بدلتی ہے انداز کہانی کا

لے آتا ہے منظر پر، جب چاہے نیا کردار

رکھا ہے مصنف نے در باز کہانی کا

بننا ہی تھا آخر کو افسانۂ رسوائی

یاروں کو بنایا تھا ہمراز کہانی کا

مر کر بھی نہیں مرتے کردار محبت کے

رکھتا ہے انہیں زندہ اعجاز کہانی کا

افسانۂ ہستی میں وہ موڑ بھی آتا ہے

جب ساتھ نہیں دیتے الفاظ کہانی کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]