آخری حد پہ اک جنون کے ساتھ

مل دسمبر کبھی تو جون کے ساتھ

میرا لکھنے کا وقت ہوتا ہے

لوگ سوتے ہیں جب سکون کے ساتھ

کرب _ تخلیق سہنا پڑتا ہے

شعر میں سینچتی ہوں خون کے ساتھ

سردیوں میں اسے میں بھیجوں گی

اک سویٹر بنا ہے اون کے ساتھ

میں نہیں جانتی کہ آنکھوں کا

کیا تعلق ہے مون سون کے ساتھ ؟

یعنی اب سیکھ لوں میں گھرداری

لیس ہو جاؤں سب فنون کے ساتھ

صاف لگتا ہے عشق ہو گیا ہے

چپکے رہتے ہو اپنے فون کے ساتھ

کس قدر میچ کر گئی کومل

اس کی آواز دل کی ٹون کے ساتھ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]