آقا کی زلفِ نور سے عنبر سحر ملے

مدت سے آرزو ہے کہ اِذنِ سفر ملے

دہلیزِ مصطفیٰ پہ جھکا دوں میں اپنا سر

مجھ کو اگر حضور مدینے میں گھر ملے

پلکوں سے چن سکوں میں درِ مصطفیٰ کی ضو

نعلینِ مصطفیٰ سے لگی خاکِ در ملے

اے کاش میں بھی جاؤں دیارِ رسول میں

مجھ کو بھی ان کے شہر سے کوئی گہر ملے

آقا نے جو لگایا تھا پودا کھجور کا

سائے میں بیٹھنے کو مجھے وہ شجر ملے

دل میں یہی تمنا مچلتی ہے بار بار

ہر سو جو ان کو پائے وہی بس نظر ملے

پتھر نصیب کے ہیں دھنی ان کے شہر میں

بہتر جہاں سے بڑھ کے وہاں کے ثمر ملے

بڑھتی ہی جا رہی ہے مرے دل کی آرزو

مجھ کو بھی مصطفیٰ کی مؤدت کا زر ملے

آلِ نبی سے جن کی وفا میں شعور تھا

مجھ کو انہی ستاروں سے ارفع اثر ملے

سِدرہ سے آگے جاتے ہیں نعلینِ مصطفیٰ

جبریل کو جہاں کی نہ قائم خبر ملے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]