اجنبی شہر کے اجنبی راستے، میری تنہائی پر مُسکراتے رہے

میں بہت دیرتک یونہی چلتا رہا، تم بہت دیر تک یاد آتے رہے

زہر مِلتا رہا، زہر پیتے رہے، روز مرتے رہے، روز جیتے رہے

زندگی بھی ہمیں آزماتی رہی، اور ہم بھی اسے آزماتے رہے

زخم جب بھی کوئی ذہن و دل پر لگا، زندگی کی طرف اِک دریچہ کُھلا

ہم بھی گویا کسی ساز کے تار ہیں، چوٹ کھاتے رہے، گُنگُناتے رہے

سخت حالات کے تیزطوفان میں، گِر گیا تھا ہمارا جنونِ وفا

ہم چراغِ تمنّا جلاتے رہے، وہ چراغِ تمنّا بُجھاتے رہے

کل کچُھ ایسا ہُوا میں بہت تھک گیا، اِس لیے سُن کے بھی اَن سُنی کر گیا

کتنی یادوں کے بھٹکے ہوئے کارواں، دل کے زخموں کے در کھٹکھٹاتے رہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]