اسی کو ترک وفا کا گماں ستانے لگے
اُسی کو ترکِ وفا کا ، گُماں ستانے لگے
جسے بھلاؤں تو ، کچھ اور یاد آنے لگے
اِسے سنبھال کے رکھو , خزاں میں لَو دے گی
یہ خاکِ لالہ و گُل ھے , کہیں ٹھکانے لگے
تجھے میں اپنی مُحبت سے , ھٹ کے دیکھ سکوں
یہاں تک آنے میں مجھ کو , کئی زمانے لگے
یہ اُس کا جِسم ھے ، یا ھے طلسمِ خواب کوئی
ادھر نگاہ اُٹھاؤں تو ، نیند آنے لگے۔
کسی بہار سے تسکین آرزو نہ ھُوئی
جو پُھول صُبح کِھلے ، شام کو پرانے لگے
نوید دورئ منزل ثبات دے مجھے
کہ قرب سے تو قدم اور ڈگمگانے لگے۔
وفا بھی حل ھو تو ایسا نہ ھو سلیم ، کہ پھر
دل خراب نئے مسئلے اُٹھانے لگے۔