اسے زما نہ بڑے ہی ادب سے ملتا ہے
اسے زمانہ بڑے ہی ادب سے ملتا ہے
وہ جس کا شجرہ تمہارے نسب سے ملتا ہے
ہمای فکر میں اپنا کوئی ہنر ہی نہیں
ہمیں تو لفط بھی تیرے سبب سے ملتا ہے
بہارِ ورد کو ہوتی ہے جب گلوں کی تلاش
گلاب حرف خیابانِ لب سے ملتا ہے
اتارتا ہے تھکن وہ درِ فضیلت پر
صدی کا فاصلہ جو ” ایک شب ” سے ملتا ہے
وہاں پہ تنگی و تفریق کا گزر ہی نہیں
وہاں سوالی کو اپنی طلب سے ملتا ہے
نگاہِ خامہ اسے بار بار چومتی ہے
وہ حرفِ پاک جو تیرے لقب سے ملتا ہے