الفاظ کے پردے میں اگر تُو نہیں نکلے

پھر نوک قلم سے کوئی جادو نہیں نکلے

دھُلتا ہے مرے اشکوں سے ہر رات یہ پھر بھی

تکیے سے ترے قرب کی خوشبو نہیں نکلے

منصف تو بڑی بات اگر ڈھونڈ نے جاؤ

اِس شہر ستم گر میں ترازو نہیں نکلے

روئے جو کبھی نیشۂ حالات پہ ہم لوگ

اک زہر ٹپک آیا ہے آنسو نہیں نکلے

دشمن مرے بیٹھیں جو حلیفوں کے مقابل

اک فرق بھی دونوں میں سر مُو نہیں نکلے

بے آسرا بیٹھے رہے ہم بزم وطن میں

جب تک کہ رہا درد پہ قابو، نہیں نکلے

لڑنے کے لئے نکلے ہیں ہم جنگ بقا کی

گھر چھوڑ کے اپنا کوئی بھکشو نہیں نکلے

اک عمر ہوئی چھوڑے ہوئے دشت غزالاں

پیروں سے پہ خوئے رم آہو نہیں نکلے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]