اوجِ شرف تک آپ کے پہنچے نظر کہاں

طے کر سکے خیال بھی اتنا سفر کہاں

پانی میں بھی ہے آب پہ آبِ گہر کہاں

فردِ بشر کہاں یہ، وہ خیر البشر کہاں

پائے حقیقتوں کو یہ عقلِ بشر کہاں

مانے بغیر اس کو کسی کو مفر کہاں

اللہ رے یہ رعبِ جمالِ محمدی

دیکھا ہے ساتھیوں نے مگر آنکھ بھر کہاں

حسن و جمالِ یوسفِ کنعاں صد آفریں

لیکن کمالِ حسنِ شہِ بحر و بر کہاں

دیکھی ہے ماہتاب کی ہم نے کرن کرن

اس رشکِ ماہتاب کی کرنیں مگر کہاں

آئے ہیں رہبری کو ہزاروں پیامبر

ان سا مگر یہ حق ہے کوئی راہبر کہاں

بخشا ہے دشمنوں کو کھلے دل سے آپ نے

جو ان میں ہے وہ حوصلۂ درگزر کہاں

ٹپکے جو ان کی یاد میں آنسوز چشمِ تر

ان کے مقابلے میں ہیں لعل و گہر کہاں

پہنچوں جو ان کے در پہ تو اٹھنے کا میں نہیں

مجھ کو نہیں دماغ پھروں در بدر کہاں

ان کی نگاہِ لطف کا امیدوار ہوں

شوقِ سفر نظرؔ ہے پہ رختِ سفر کہاں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]