اُسی حوالے سے ہر بار میں نشانہ ہوا

جسے بھلائے ہوئے بھی مجھے زمانہ ہوا

یہ خوئے دربدری تو مرے مزاج میں تھی

کسی کا مِل کے بچھڑنا تو اک بہانہ ہوا

نکل سکا نہ اک اندیشۂ فراق سے عشق

خیالِ وصل کبھی حرفِ مدعا نہ ہوا

وفا تو محوِ ستائش تھی اس کو کیا معلوم

جمالِ یار حقیقت سے کب فسانہ ہوا

کسی نرالے سے گاہک کے انتظار میں دل

دکان درد پہ رکھے ہوئے پرانا ہوا

کوئی بتائے مجھے کاروان عمرِ رواں

کہاں سے آیا، کدھر ٹھہرا، کب روانہ ہوا

یہ بستیاں ہیں جو راہوں میں قافلے تھے کبھی

جہاں پہ رک گیا کوئی وہیں ٹھکانہ ہوا

عجیب شہر تھا جس نے دیارِ ہجرت میں

مجھے بنا لیا اپنا مگر مرا نہ ہوا

مری وفاؤں کا سودا مری ضرورت سے

کچھ اس طرح سے ہوا ہے کہ دل بُرا نہ ہوا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]