اُن کا تصور اور یہ رعنائیِ خیال

دل اور ذہن محو پذیرائیِ خیال

مرکز ہوں اک وہی مِرے ذوقِ خیال کے

یکتا ہیں وہ، تو چاہیے یکتائیِ خیال

ممکن نہیں کہ وصف بیاں اُن کے ہو سکیں

محدود کس قدر ہے یہ پہنائیِ خیال

بے حرف و صوت بھی یہاں ممکن ہے التجا

کافی ہے عرضِ حال کو گویائیِ خیال

ہر ذرہ بارگاہِ نبی کا ، چراغِ ذہن

خاکِ مدینہ ، سرمہء بینائیِ خیال

بے جان اپنی سوچ ہے ، بے روح اپنا ذوق

درکار ہے ہمیں بھی مسیحائیِ خیال

ملتی ہے صرف اُن کی توجہ کے نُور سے

تنہائیوں میں انجمن آرائیِ خیال

اُن کے بغیر رنگ نہ ہو کائنات میں

ہے اُن کے دم سے زینت و زیبائیِ خیال

اوروں کے در پہ جانے کا سوچوں میں کیوں نصیرؔ

مجھ کو نہیں قبول یہ رسوائیِ خیال

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]