اُن کی یاد آئی تو بھر آئے سحابِ مژگاں

کُھل کے برسا ہے مرے قلب پہ آبِ مژگاں

ایک دیدار کی اُمید سے نکہت لے کر

کِھل سے جاتے ہیں سرِ شام گُلابِ مژگاں

کوئے انوار سے اک ناقہ سوار آئیں گے

بس اُنہی کے لئے وا رہتا ہے بابِ مژگاں

اک تصوّر ہے جسے اور کوئی دیکھ نہ لے

اُس پہ رکھتا ہوں میں ہر وقت حِجابِ مژگاں

اِس کا مقصُود ہے اک شہرِ معطّر کا طواف

بس اِسی شوق میں بہتا ہے چنابِ مژگاں

موڑ مُڑتے ہی پڑی گنبدِ اخضر پہ نظر

ایک ہی پل میں سوا ہو گئی تابِ مژگاں

اِک نہ اِک روز تو تعبیر اسے چُومے گی

ایک دیدار کی حسرت میں ہے خوابِ مژگاں

کتنا رویا ہُوں مدینے میں حُضُوری کے لئے

فردِ اعمال میں لکھا ہے حسابِ مژگاں

قلبِ اشفاق کے ابلق پہ سواری کیجے

تھام کر بیٹھا ہُوں مُدّت سے رکابِ مژگاں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]