اہلِ طائف نے اگرچہ انہیں مارے پتھر

مانگی آقا نے دعا چھاتی پہ رکھے پتھر

مکہ والوں نے کہا ان کو امین و صادق

ان کے اخلاق کی تاثیر پگھلے پتھر

ان کی گویائی کا اک ادنی سا اعجاز ہے یہ

اذن مولا نے دیا ہاتھ میں بولے پتھر

حجرِ اسود نے لیے دستِ کرم کے بوسے

اس لیے چومتے ہیں چومنے والے پتھر

کتنا مشکل ہے مدینے سے پلٹ کر آنا

واپسی کے لیے بن جاتے ہیں رستے پتھر

ان کی سیرت کی جو کردار سے خوشبو آتی ہے

آج ہم پر نہ ہر اک سمت سے پڑتے ہیں پتھر

عصرِ عاشور جھکے سجدے میں جب ابنِ علی

تیر آئے کہیں سے اور کہیں سے پتھر

لوگو یہ رحمتِ عالم کی دعا ہے ورنہ

ہم پہ دن رات سماوات سے گرتے پتھر

بول اٹھتے ہیں محمد کی گواہی کے لیے

ان کے دربار میں کب رہتے ہیں گونگے پتھر

اپنی امت سے تھی اس درجہ محبت ان کو

اپنی امت کے لیے شاہ سے ڈھوئے پتھر

یا نبی اپنے مدینے میں بلا لیں مجھ کو

توڑ ڈالیں نہ کہیں دل کے یہ شیشے پتھر

آج تک بھی وہ مری سانس میں اٹکے ہوئے ہیں

تھے مدینے سے جدائی کے وہ لمحے پتھر

عشقِ احمد کا اجالا جو نہ ہوتا مظہرؔ

عین ممکن تھا کہ دل ہوتے ہمارے پتھر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]