اِک دوانے سے بھرے شہر کو جا لگتی ہے

یہ محبت تو مجھے کوئی وبا لگتی ہے

روز آتی ہے میرے پاس تسلی دینے

شب تنہائی ! بتا ، تو میری کیا لگتی ہے

ایک فقط تو ہے جو بدلا ہے دنوں میں ورنہ

لگتے لگتے ہی زمانے کی ہوا لگتی ہے

آنکھ سے اشک گرا ہے سو میاں ! ہاتھ اٹھا

تارہ ٹوٹے پہ جو کی جائے دعا ، لگتی ہے

تیری آنکھوں کے ستاروں کے طفیل اے میرے دوست

دشت پر ہول کی ظلمت بھی ضیا لگتی ہے

وہ جو ملتی ہی نہیں عالم بیداری میں

آنکھ لگتے ہی میرے سینے سے آ لگتی ہے

بات جتنی بھی ہو بے جا مگر اے شیریں سخن

جب تیرے لب سے ادا ہو تو بجا لگتی ہے

سب پُجاری ہیں اُسی ایک بُتِ کافر کے

بات کڑوی ہے مگر بات خدا لگتی ہے

خوش گمانی کا یہ عالم ہے کہ فارس اکثر

یار کرتے ہیں جفا ، ہم کو وفا لگتی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]