ایک کلک

وہ ناتواں قدموں سے
چل رہا تھا
دور سے جس نے
اسے دیکھا وہ سمجھا
جھولتا ہوا یہ شخص
نشئی ہے
ارے یہ کیا ہوا
وہ تو مر گیا ہے
اس کے گرد گھیرا
ڈالتے ہجوم میں سے
آواز آئی
 
مجھے یاد آیا
اسے میں نے صبح
گول چوک میں
سڑک کراس کرتے
اپنی گاڑی کے
نیچے آنے سے
بچایا تھا جہاں
ایک بڑے شامیانے میں
کسی خود ساختہ وی آئ پی
کے ہاتھوں خیرات کا
راشن بٹنے والا تھا
مگر یہ تو خالی ہاتھ
تھا اوہ میرے خدا
یہ کیمرے پر
اپنی عزت نفس کا
سودا نہ کر سکا
اور مر گیا
ایک اللہ کی زمین پر
ایک کلک سے ڈرنے والے
تیرے جیسے کتنے ہوں گے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

بہ فیض قائد اعظم

ہم وہ ہیں جن کی روایات سلف کے آگے چڑھتے سورج تھے نگوں قیصر و کسریٰ تھے زبوں گردش وقت سے اک ایسا زمانہ آیا ہم نگوں سار و زبوں حال و پراگندہ ہوئے سال ہا سال کی اس صورت حالات کے بعد ایک انسان اٹھا ایسا کہ جس نے بڑھ کر عزم و ہمت […]

ہمیں نابود مت کرنا

اگرچہ سوت سے تکلے نے دھاگے کو نہ کھینچا تھا مرے ریشے بنت کے مرحلے میں تھے رگیں ماں کی دریدوں سے نہ بچھڑی تھیں میں اپنے جسم سے کچھ فاصلے پر تھا مگر میرے عقیدے کا تعین کرنے والوں نے مرے مسلک کے بارے میں جو سوچا تھا اسے تجسیم کر ڈالا میں جس […]