اے راحتِ جاں ، فرحتِ دل ، حاصلِ دیدہ !

کٹتے نہیں اب ہجر کے لمحاتِ کبیدہ

توفیقِ ثنا ہو تو کفِ حرف میں آئیں

احساس میں کِھلتے ہوئے گُلہائے چنیدہ

موجود بہ ہر طَور ہے طلعت ترے در کی

منقوش ترے دَم سے ہے عالَم کا جریدہ

ہونا ہے نمو یاب شہِ دیں کے کرم سے

ہے دل جو مرا صورتِ یک شاخِ بُریدہ

ممکن نہیں اب اور سنبھالے سے یہ سنبھلے

لے آیا تو ہُوں در پہ ترے ضبطِ رمیدہ

زیبا ہے تجھے عرض سے پہلے ہی عنایت

اظہار مرا خام ہے ، دامن ہے دریدہ

تھامے ہوئے اظہارِ عقیدت کی تمنا

ہے زیرِ معانی کمرِ لفظ خمیدہ

چاہیں گے کوئی خاص ہی پیرایۂ اظہار

تعمیم سے بالا ترے اوصافِ فریدہ

معراج کی حیرت نے کیا راز ہویدا

تھے آپ کے دو گام وہ اَبعاد بعیدہ

توفیق طلَب آپ کی درگاہِ ثنا میں

حاضر ہے ، مرے فکر کی ہر فصلِ دمیدہ

اُس پیکرِ کامل کی ثنا گوئی کی خاطر

مقصودؔ اُتاری گئیں آیاتِ مجیدہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]