اے قدیرِ قدرتِ بیکراں مجھے اذنِ عرضِ سوال دے

یہ جو شمسِ قہر ہے اوج پر اسے تُو ہی حکمِ زوال دے

تری خلق ہیں سبھی خشک و تر تو ہی حکمراں ہے جہان پر

ترے تحتِ امر ہیں بحر و بر مری مشکلات کو ٹال دے

تجھے واسطہ ہے حبیب کا تری رحمتوں کے نقیب کا

ہے مرا غنیم عجیب سا مجھے حوصلہ ،مجھے ڈھال دے

ہیں مریضِ غم ترے بندگاں جو گھروں میں بند ہیں بے گماں

وہ پسارے بیٹھے ہیں جھولیاں کہ شفا کی بھیک تُو ڈال دے

یہ فساد ہے جو مچا ہوا ہے بشر کا اپنا کیا دھرا

جو نگل رہی ہے اسے وبا سبھی بستیوں سے نکال دے

ہے عجب یہ آفتِ نا گہاں کہیں بھوک ہے کہیں خوفِ جاں

ہوئیں تنگ جن کی بھی روزیاں انہیں تُو ہی رزقِ حلال دے

جو اجڑ گئی ہیں وہ مجلسیں جو بچھڑ گئی ہیں وہ سنگتیں

انھیں کر عطا وہی رونقیں انھیں سوز و سازِ وصال دے

ہو بہار پھر سے نگر نگر ہوں قرار میں سبھی بام و در

تری رحمتوں پہ ہے ہر نظر سبھی ظلمتوں کو اجال دے

جو ہوئیں خطائیں معاف کر تو بحال پھر سے مطاف کر

مری روح وقفِ طواف کر یوں ظفر کو حسنِ مآل دے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]