بات جو دل میں نہیں لب سے ادا کیسے کروں

میں خفا تو ہو گیا اُس سے، گلہ کیسے کروں

دل کے ٹوٹے آئنے میں عکس ہے اک خواب کا

قیدِ رنگ و روپ سے اُس کو رہا کیسے کروں

سوچتا ہوں اک ہجومِ صد بلا کے درمیاں

عافیت کے خواب کو میں واقعہ کیسے کروں

روز و شب کے گنبدِ بے دَر سے مشکل ہے فرار

دَر اگر مل جائے بھی تو حوصلہ کیسے کروں

راہ کوئی روح کے اندر کھُلے تو بات ہے

میں کسی کے نقشِ پا کو رہنما کیسے کروں

ہم نشیں میرے ابھی تک ہیں خیالِ فرد فرد

ہم نظر میں کر بھی لوں تو ہمنوا کیسے کروں

زندگی سے وہ گیا اور زندگی جاتی رہی

مختصر سے حرفِ غم کو مرثیہ کیسے کروں

ہر گھڑی دل پر مرے دستک نئی خواہش کی ہے

اسقدر جب شور ہو، تجھ کو صدا کیسے کروں

شرم آتی ہے مجھے حاجت روا کے سامنے

خواہشوں کی فکر کو حرفِ دعا کیسے کروں

دور کچھ بھی تو نہیں وہ، ہے مری مشکل یہی

دو قدم کا فاصلہ ہے ابتدا کیسے کروں

کس طرح اتنی محبت اب نبھاؤں میں ظہیرؔ

اتنا قرضِ دوستی آخر ادا کیسے کروں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]