بازی انا کی، بھوک سے کیسی بری لگی

بھوکا بُرا لگا، کبھی روٹی بری لگی

خانہ بدوشیوں کے یہ دکھ بھی عجیب ہیں

چوکھٹ پر اپنے نام کی تختی بری لگی

روشن دریچے کر گئے کچھ اور بھی اداس

صحرا مزاج آنکھ کو بستی بری لگی

دشمن کی ناخدائی گوارا نہ تھی ہمیں

غرقاب ہوتے ہوتے بھی کشتی بری لگی

خود پر دیارِ غیر کی نسبت نہ رکھ سکا

بیٹے کو ماں کے نام کی گالی بری لگی

سیکھا تھا ننگے پیروں سے چلنا جہاں ظہیرؔ

پاپوش مل گئے تو وہ مٹی بری لگی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]