بدن میں زندگی کم ہے سوا اذیت ہے
رگیں ادھیڑ کے دیکھو کہ کیا اذیت ہے
تو کیا خدا مری حالت سمجھ نہیں سکتا
میں چیخ چیخ کے بولوں ؟ خدا ! اذیت ہے
لویں اجاڑ دیں اور روشنی کا قتل کیا
چراغِ شام سے پوچھو ، ہوا اذیت ہے
ہزار بار کی مانگی ، نہیں قبول ہوئی
ہم ایسے منکروں کو اب دعا اذیت ہے
خوشی تو آئی تھی مہمان چار دن کی مگر
خدا کا شکر بڑی دیرپا اذیت ہے
تمہارے بعد کہاں دیکھتے ہیں چہرے کو
ہمارے سامنے یہ آئینہ اذیت ہے