بلا سبب تو نہیں ہے کھلا دریچۂ خیر

صبا نے دل کو سنایا کسی کا گفتۂ خیر

ریاضِ جاں میں انہی سے کھلے ہیں خیر کے گل

دل و نگاہ انہی سے بنے حدیقۂ خیر

بچھا کے بیٹھے ہیں آنکھیں کہ ہو گا ان کا گزر

چمک رہا ہے امیدوں سے دل کا خیمۂ خیر

گزر رہی ہے جو بادِ نسیم دھیرے سے

کسی غلام کا لے کر چلی ہے تحفۂ خیر

صبا کے لب پہ جو رہتی ہے نغمگی ہر دَم

درود پڑھتی ہے یا پھر سلامِ نغمۂ خیر

کرم پہ ان کے یقیں ہے مجھے بلائیں گے

انہیں خبر ہے ہماری بلا عریضۂ خیر

ذرا سا رک تو اجل اور لے ذرا سا دَم

ابھی دکھائیں گے مجھ کو حضور چہرۂ خیر

کہیں پہ سعدی و جامی، کہیں پہ بو صیری

سبھی کی فکر کا حاصل ثنا کا توشۂ خیر

کہاں رضا کا وہ لہجہ کہاں نصیر کا رنگ

کہاں وہ حُسْنْ حَسَنْ کاکہاں یہ ھدیۂ خیر

انہی کے اذن سے جب بھی ہوئی ہے نعت رقم

ظفر نصیب ہوا ہے مجھے بھی خامۂ خیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]