بھنور سے یہ جو مجھے بادبان کھینچتا ہے

ضرور کوئی ہواؤں کے کان کھینچتا ہے

کسی بدن کی تمازت نڈھال کرتی ہے

کسی کے ہاتھ کا تکیہ تھکان کھینچتا ہے

دکھا رہا ہے خریدار بن کے آج مجھے

جسے لپیٹ کے رکھوں وہ تھان کھینچتا ہے

نشست کے تو طلبگار ہی نہیں ہم لوگ

ہمارے پاؤں سے کیوں پائدان کھینچتا ہے

بدل کے دیکھ چکی ہے رعایا صاحب ِتخت

جو سر قلم نہیں کرتا زبان کھینچتا ہے

یہ سارا جھگڑا ترے انہماک کا ہی تو ہے

سمیٹتا ہے کوئی داستان کھینچتا ہے

چراغوں میں وہ چراغ اس لئے نمایاں ہے

ہم ایسے دیکھنے والوں کا دھیان کھینچتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]