بھنور سے یہ جو مجھے بادبان کھینچتا ہے
ضرور کوئی ہواؤں کے کان کھینچتا ہے
کسی بدن کی تمازت نڈھال کرتی ہے
کسی کے ہاتھ کا تکیہ تھکان کھینچتا ہے
دکھا رہا ہے خریدار بن کے آج مجھے
جسے لپیٹ کے رکھوں وہ تھان کھینچتا ہے
نشست کے تو طلبگار ہی نہیں ہم لوگ
ہمارے پاؤں سے کیوں پائدان کھینچتا ہے
بدل کے دیکھ چکی ہے رعایا صاحب ِتخت
جو سر قلم نہیں کرتا زبان کھینچتا ہے
یہ سارا جھگڑا ترے انہماک کا ہی تو ہے
سمیٹتا ہے کوئی داستان کھینچتا ہے
چراغوں میں وہ چراغ اس لئے نمایاں ہے
ہم ایسے دیکھنے والوں کا دھیان کھینچتا ہے