تتلی سی کوئی پنکھ کی چادر سے اُڑی ہے

یہ نیند مِری خواب کی ٹھوکر سے اُڑی ہے

شاید کسی بھوکے کو سُلا دے گی سکوں سے

گھنٹی کوئی پیتل کی جو مندر سے اُڑی ہے

آسیب زدہ ہوگا کہ اژدر کا ٹھکانہ

اُس پیڑ سے وہ چیل کسی ڈر سے اُڑی ہے

کیا ’’سنگ نظر‘‘ آگیا تھا شیشہ گروں میں؟

وہ کانچ کا پیکر کسی پتھر سے اُڑی ہے

بوسیدہ مکاں سا میں ، زمیں بوس ہوا ہوں

یہ خاک مِرے اپنے ہی اندر سے اُڑی ہے

زینت بنی ہے مرتضیٰ جو اُس کی جبیں کی

سلوٹ کہ شکن ہو مِرے بستر سے اُڑی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]