دل ہم سے مقتضی ہے ثنائے حضور کا

ہم تک رہے ہیں نور چراغِ شعور کا

ذکر آ گیا زباں پہ مری آں حضور کا

عالم عجیب دل میں ہے کیف و سرور کا

میثاق انبیاء سے وہ ربِ غفور کا

چرچا ہوا ازل ہی سے ان کے ظہور کا

صورت ہے ان کی آئینۂ حسنِ لم یزل

سیرت پہ انعکاس ہے قرآں کے نور کا

اتنے گہر لٹائے ہیں دُرِّ یتیم نے

پیمانہ بھر گیا مرے علم و شعور کا

صد حیف ہم پہ آئیں جو اب بھی فریب میں

کھولا ہے اس نے راز متاعِ غرور کا

ان کی کتاب ساری کتابوں سے ہے بلند

انجیل ہی کا ہے نہ وہ پایہ زبور کا

اک کاروانِ شوق ترے آستاں پہ ہے

زائر طرح طرح کا ہے نزدیک و دور کا

دیکھا ہے اس نے جلوۂ حق اپنی آنکھ سے

قصہ ہے مختلف اَرَنی گوئے طور کا

روضہ پہ آنحضور کے جا دیکھ اے نظرؔ

منظر جو دیکھنا ہے تجھے سیلِ نور کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]